Orhan

Add To collaction

غلط فہمیاں

غلط فہمیاں
از حورین 
قسط نمبر15

  اس کے بعد اس نے نکاح نامے پے لرزتے ہاتھوں سے سائن کیے اور پھر وہاج کو اس کے ساتھ لا کے بیٹھا دیا گیا اس نے چہرہ پے سہرا کیا تھا جس کی وجہ سے اسے کچھ عجیب تو لگا لیکن اس نے زیادہ دھیان نہیں دیا۔اور دور کھڑے کسی نے اپنی آنکھوں سے بہنے والا آنسوں بے دردی سے صاف کیا 
  کچھ ہی دیر میں رخصتی کی گئی اور اب اسے وہاج کے کمرے میں بیٹھا دیا گیا تھا شہناز بیگم ابھی باہر گئیں تھیں 
کچھ دیر بعد دروازہ کھلنے کی آواز آئی تو اسے گھبراہٹ ہونے لگی۔وہاج آیا اس نے اس سے کوئی بات نہیں کی ۔پھر کپڑے چینج کر کے آیا 
سمیٹو یہ سب مجھے نیند آ رہی ہے ۔۔۔۔جلدیییی۔اس نے روکھے سے لہجے میں کہا جبکہ وہ ہونکوں کی طرح اسے دیکھنے لگی کہ آج کے وہاج اور پہلے کے وہاج میں کتنا فرق ہے جو بھی ہو لیکن اس سے پہلے اس نے اس سے کبھی اس لہجے میں بات نہیں کی 
اٹھو بھی ابب۔اسے نہ ہلتے دیکھ وہ دوبارہ بولا تب وہ جلدی سے بیڈ سے اتری اور ڈریسنگ روم میں چلی گئی ۔
کچھ دیر بعد جب وہ واپس آئی تو کمرے کی لائٹ اوف تھی اور وہاج بیڈ پے لیٹا ہوا تھا شاید سو رہا تھا وہ اگے بڑھی تو اسے سائیڈ ٹیبل پے مخملی سی ڈبی دکھائی دی اس نے اسے کھولا تو اس میں ایک خوبصورت سی چین تھی تبھی ایک آنسو اس کے گال پے پھسلا ۔وہاج ایسا کیوں کر رہا تھا کہ اس نے یہ خود دینے کی زحمت بھی نہ کی ۔وہ اسے رکھ کے بیڈ پے بیٹھی جب اسے اسکی آواز آئی مطلب وہ نہیں سو رہا تھا 
پلز صوفے پے سو جاؤ میں اپنا بیڈ شیئر نہیں کر سکتا۔اس نے سادہ میں لہجے میں کہا جبکہ حوریہ منجمد ہو گئی کہ کیا اب اسکی زندگی میں اسکی اتنی اہمیت بھی نہ رہی اس نے تو سنا تھا کہ نکاح میں بہت طاقت ہوتی ہے وہ پتھر کو بھی موم بنا دیتا ہے لیکن یہاں شاید الٹا ہوا وہ جو موم تھا اب پتھر بن گیا۔اس نے کانپتے ہاتھوں سے تکیہ اٹھایا اور صوفے پے آ گئی۔آنسو قطار در قطار بہہ رہے تھے اور یونہی نیند کی دیوی اس پے مہربان ہو گئی 
💞💞💞💞💞💞💞💞
زارون بے چینی سے اپنے کمرے میں ٹہل رہا تھا۔وہ کچھ دیر پہلے ھی گھر آیا تھا اسے آج یہ معلوم ہوا تھا کہ کشش اور زرش دو ٹوئنز تھیں۔اور اسے سب سمجھ بھی آ گیا تھا اسی نے اسے یہ خبر بھی دی تھی جس نے پہلے بتایا تھا اور اسے اب خود پے بہت غصہ آ رہا تھا کہ اس نے بے گناہ کے ساتھ ایسا کیا کیونکہ اسے ہمیشہ سے ھی اس کشش اور اس کشش میں فرق لگتا تھا لیکن وہ کسی نتیجے پے نہیں پوھنچ پا رہا تھا۔۔اس نے اسے اسکے گھر والوں سے دور کیا تب ھی کچھ سوچتے اس نے پاکستان کی ٹکٹ بک کروائی۔اب وہ کشش کے گھر والوں سے معافی مانگنا چاہتا تھا لیکن کیا وہ اسے معاف کریں گے ؟
💞💞💞💞💞💞💞💞
 صبح ہو چکی تھی اور وہاج نے ساری رات آنکھوں میں کاٹی تھی اب بھی وہ کافی دیر سے غیر مرئ نقطے کو دیکھ رہا تھا پھر اسے حوریہ کا خیال آیا تو صوفے کی جانب دیکھا جہاں وہ بلکل کنارے پے سوئی تھی ایک بازو اسکا نیچے لٹک رہا تھا اسے دیکھ کے اسے اپنے رات کے رویے کے بارے میں یاد آیا۔اس نے خود بہت کچھ سوچا تھا کہ وہ اسے ہر خوشی دے گا لیکن اب 
وہ اٹھ کے اس کے پاس گیا اس کے چہرے پے آنسوؤں کے مٹے مٹے نشان تھے۔اسے خود پے غصّہ آنے 
لگا لیکن اس نے خود پے قابو پایا 
حوریہ حوریہ حوریہ ۔اس نے پہلے آہستہ آہستہ اور پھر اونچی آواز میں اسے پوکارہ لیکن جب وہ ٹس سے مس نہ ہوئی تو اسکی اتنی گہری نیند دیکھ کے اسکے ہونٹوں پے مسکراہٹ چھائ کیونکہ اسنے اتنی گہری نیند کسی کی نہیں دیکھی تھی 
پھر اس نے اسے اٹھانے کے لئے بیڈ کے سائیڈ ٹیبل گلاس اٹھا کے زور سے زمین پے پھینکا 
اور کشش جو بہت گہری نیند میں تھی اسے لگا جیسے کوئی چیز پہاڑ سے گری ہو ۔تو اس نے آہستہ آہستہ نیند سے بوجھل آنکھیں کھولیں جب اسے سارا ماجرا سمجھ آیا تو وہ جلدی سے اٹھی 
کل سے تم 6:30 بجے اٹھو گی ناشتہ بناؤ گی میرے لئے  ۔وہ یہ کہتا الماری کی جانب بڑھا 
اور ہاں میرے کپڑے بھی تم ھی نکالو گی ۔اس نے اسکی ہونک بنی شکل دیکھ کے کہا 
جی ؟۔اس نے بے یقینی سے کہا 
جی ہاں ۔وہ یہ کہتا واش روم کی جانب بڑھ گیا ۔جبکہ حوریہ فق چہرہ لئے وہاں ھی دیکھ رہی تھی جہاں سے وہ گیا تھا کیونکہ اسے کچھ بھی نہیں آتا تھا کچن میں وہ کبھی نہیں گئی تھی اور صبح جلدی خود اٹھنا یہ تو نہ ممکن بات تھی۔ایک بار پھراسکی آنکھوں میں آنسو آ گئے آج اسکا ولیمہ تھا اور اسکا شوہر اسے اپنے کاموں کی لسٹ تھما رہا تھا ابھی وہ کھڑی تھی کہ دروازہ نوک ہوا اور عیشاء کی آواز 
حور دروازہ کھولو جلدی ۔اسکی بد حواس سی آواز آئی  تو اس نے جلدی سے دروازہ کھولا 
ہاں کیا ہوا سب ٹھیک ہے ۔اس نے اسے دیکھ کے پوچھا 
حوریہ وہاج بھائی کہاں ہیں جلدی چلو نیچے آمان انکل کو ہارٹ اٹیک ہوا ہے ۔وہ اسے جلدی سے کہتی نیچے نیچے واپس گئی 
کیا ؟بابا کو ۔وہ بھی تیزی سے نیچے کو بھاگی تب ھی وہاج نے اسے بھاگتے دیکھا تو وہ بھی جلدی سے نیچے گیا 
وہ جب کمرے میں پوھنچی تو شہناز بیگم آمان صاحب کے پاس بیٹھی رو رہی تھیں 
ماما ماما کیا ہوا بابا کو ۔وہ جلدی سے ان کے پاس پوھنچی 
بابا بابا اٹھیں کیا ہوا آپکو بابا ۔وہ انہیں جھنجھوڑتی بولی 
حوریہ پتا نہیں کیا ہوا انہوں نے مجھے کہا کہ انھیں پانی پینا ہے تو میں پانی لینے گئی تھی جب واپس آئی تو وہ دل پے ہاتھ رکھے کراہ رہے تھے ۔شہناز بیگم نے ہچکیوں سمیت کہا ۔تب ھی وہاج وہاں پوھنچا 
باباااا 

   1
0 Comments